وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًاط (آل عمران: ۷۹) ’’اور اللہ کے لئے لوگوں پر گھر (کعبتہ اللہ) کا حج ہے وہ جو اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھتا ہو‘‘۔ بچوں اور دیوانوں پر حج فرض نہیں۔ حضرت سیّدنا علی بن ابی طالب ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ جب یہ آیت مبارک اُتری کہ تو لوگوں نے عرض کیا‘ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیک وسلم)کیا ہر سال حج کرناہے؟ (جب حضور نبی کریم ؐ نے یہ سوال سنا) تو (آپ ؐ) خاموش رہے۔ پھر عرض کیا گیا، یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیک وسلم) ہر سال؟ (آپ ؐ نے) فرمایا نہیں! اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا تو پھر نے یہ آیت مبارک اُتاری۔’’اے اِیمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بڑی بری لگیں یعنی تم پرشاق گزریں‘‘۔ (مسند احمد جلد ۱ ص ۳۱۱‘ ابن ماجہ ص ۳۱۲ )الناس:سے مراد مسلمان ہیں کیونکہ کفّار و مشرکین اور ملائکہ پر حج فرض نہیں۔ چونکہ بیت اللہ شریف وجوبِ حج کا سبب ہے اِس لئے ’’حج البیت‘‘ کہا گیا ہے۔ شریعت میں احرام باندھ کرمخصوص دنوں میں وقوف عرفات اور طواف زیارت وغیرہ کانام حج ہے۔ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا سے مراد توشہ اور سواری ہے۔ تندرستی‘ راستہ کا امن‘ مال جو اپنے جانے آنے کے لئے اور اسی مدت میں متعلقین (بال بچوں) کے خرچ کے لئے کافی ہو تو یہ توشہ ہے۔ یہ شرائط باہر والوں کے لئے ہیں۔ خود مکہ مکرمہ والوں کے لئے نہیں‘ انہیں نہ سواری شرط ہے نہ مالداری، کیونکہ ان کے گھر میں ہی حج ہے۔ اسلام، اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُقف (آل عمران:۹۱) حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’اِسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے۔ (۱) اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے محبوب بندے اور سچے رسول ؐہیں۔ (۲) نماز (پنجگانہ) قائم کرنا۔ (۳) زکوٰۃ دینا۔ (۴) حج کرنا۔ اور (۵) رمضان المبارک کے روزے رکھنا‘‘۔ جو کوئی اِن میں سے کسی ایک کا اِنکار کرے گا، وہ اِسلام سے خارج ہو گا۔(بخاری جلد۱ ص۶‘ مسلم جلد۱ ص۲۳) اِسلامی عبادات میں حج کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ ہے۔ اِس میں اِجتماعیت کا حقیقی تصور پایا جاتا ہے۔ نماز پنجگانہ میں روزانہ پانچ اَوقات میںایک بستی‘ محلہ اور کوچہ کی سطح پر اِجتماعیت نظر آتی ہے جبکہ ’’حج‘‘ کی صورت میں بین الاقوامی اِجتماعیت کا حسین منظر‘ حسنِ اِسلام کو اُجاگر کرتا ہے۔ ساری دنیا سے مختلف رنگوں‘ قوموں اور مختلف زبانیں بولنے والوں کامیدانِ عرفات میں جمع ہونا ‘عقیدہ توحید و رسالت پر یقین اور وحدتِ اُمّت کا درس دیتاہے۔ اِفتراق و انتشار کی نفی کرتا ہے۔حج کا اِجتماع شوکتِ اِسلام اور اِتحاد اِسلامی کا عظیم مظاہرہ ہے مگر ملّتِ اِسلامیہ کے بدخواہ لوگ وہاں بھی نفرت کے بیج بونے اور مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے کے لئے شرک و کفر کے فتوئوں سے اِتحاد اُمّت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے سامنے درس دینے والے، بعض ناعاقبت اندیش، خانہ کعبہ آئے ہوئے توحیدورسالت کے پروانوں کو ایسے فرقہ وارانہ لیکچر دیتے ہیں کہ وہاں موجود بے شمار لوگ لیکچر دینے والوں سے نفرت کا اِظہار کرتے ہیں۔ جو کام یہودونصاریٰ کر رہے تھے‘ اَب یہی کام فرقہ پرست لیکچرار سرانجام دے رہے ہیں۔ اِتحادِ اِسلامی کے خلاف خوفناک کام کر رہے ہیں۔ قابلِ غور مقام ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مشرکین و کفّار کا داخلہ بند ہے مگر تنخواہ دار، فرقہ پرست، لیکچرار بیت اللہ شریف میں بیٹھے ہوئے، حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والوں کو مشرک و کافر کہہ کر اور خارجِ اِسلام قرار دے کر اِنتشار و اِفتراق کا بیج بو رہے ہیں۔ حج کا عظیم مقصد مناسک حج کی بجاآوری کے ذریعے عقیدئہ توحید کا ظاہر کرنا او ر عشقِ مصطفی ؐ کا پیغام سنانا اوریہ بتانا ہے کہ حج کرنے والا اللہ کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہے اور رسولِ کریم ؐ کو آخری نبی کریم ؐ مانتا ہے اور دینِ حنیف ’’اِسلام‘‘ سے وابستگی رکھتا ہے۔
Read Online or Download pdf file
0 Comments