نواسۂ رسولؐ،جگر گوشۂ بتول ؓ،نوجوانانِ جنت کے سردار، کربلا کے قافلہ سالار، حق و صداقت کے علم بردار، سبطِ رسولؐ سید نا حضرت حسینؓ، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے چہیتے نواسے، شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہراءؓکے عظیم فرزنداور حضرت حسنؓ کے چھوٹے بھائی ہیں۔
ابو عبداللہ آپؓ کی کنیت، سید، طیب، مبارک، سبط النبیؐ، ریحانۃ النبیؐ اور نواسۂ رسولؐ القابات ہیں۔
سیدنا حضرت حسینؓ شعبان 4ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی خبر سن کر سیدِ عرب و عجم، سرکار دو عالمﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے اور نومولود حضرت حسینؓ کے کانوں میں اذان دی اور آپؓ کے منہ میں اپنا مبارک لعاب دہن داخل فرمایا، آپؓ کے لئے دعا فرمائی اور آپؓ کا نام نامی حسینؓ رکھا۔
سیدنا حسینؓ نے تقریباً سات سال تک سرور کونینﷺ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔
نبی کریمﷺ حضرات حسنینؓ سے غیرمعمولی محبت و شفقت فرماتے اور تمام صحابہ کرامؓ بھی رسالت مآبﷺ کی اتباع میں حسنین کریمینؓ سے خصوصی شفقت و محبت رکھتے اور اکرام فرماتے۔نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد خلیفۃ الرسولؐ حضرت ابوبکر صدیقؓ، امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدناحضرت عثمان غنیؓ بھی حضرات حسنینؓ کو نہایت عزیز اور مقدم رکھتے اور انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے۔
امام عالی مقام سیدنا حسینؓ بے حد فیاض، نہایت متقی، عبادت گزار اور کثرت کے ساتھ نیک عمل کرنے والے تھے۔
سخاوت، مہمان نوازی، غرباء پروری، اخلاق و مروت، حلم و تواضع اور صبر و تقویٰ آپؓ کی خصوصیات حسنہ تھیں۔ آپؓ کو نماز سے بے حد شغف تھا۔ اکثر روزے سے رہتے۔ حج و عمرہ کی ادائیگی کا ذوق اتنا کہ متعدد حج پاپیادہ ادا فرمائے۔
حضرت امام حسینؓ اپنی ذات میں ایک امت تھے۔ آپؓ نہ صرف صورت بلکہ سیرت مبارکہ میں بھی رسول اللہﷺ کے شبیہ تھے۔
آپؓ کی ذات گرامی اتنے محاسن اور محامد سے آراستہ ہے کہ نگاہیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے علم و تقویٰ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور خانوادۂ نبویؐ میں پرورش پائی، اسی لئے معدنِ فضل و کمال بن گئے۔ علم کا باب تو آپؓ کے گھر میں کھلتا تھا اور تقویٰ کی سیدنا حسینؓ کو گھٹی ملی تھی، اسی لئے فطری طور پر آپؓ اپنے دور میں شریعت اور طریقت کے امام تھے۔
تمام ارباب سیرت نے حضرت امام حسینؓ کے فضل و کمال کا اعتراف کیا ہے کہ آپؓ بڑے درجے کے حامل تھے۔
حضرت علیؓ قضاءو افتاء میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ سیدنا حسینؓ نے بھی حصول علم کے بعد مسند تدریس کو زینت بخشی اور مسند افتاء پر فائز ہوئے۔ اکابر مدینہ مشکل مسائل میں آپؓ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
سبط رسولؐ سیدنا حضرت حسینؓ دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ آپؓ کےتبحر علمی، علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ آپؓ کے خطابات سے کیا جاسکتا ہے۔
جن میں سے کچھ آج بھی کتب سیرت میں موجود ہیں۔
جگرِ گوشۂ بتولؓ، سیدنا حضرت امام حسینؓ فضائل و مناقب اور سیرت و کردار کا روشن و درخشاں باب ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ آپؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ بارگاہ رسالتﷺ میں حضرات حسنینؓ کی عظمت و محبوبیت کا یہ عالم ہے کہ اکثر نبی مہربانﷺ آپ دونوں کے لئے دعائیں مانگتے اور لوگوں کو آپؓ کے ساتھ محبت رکھنے کی تاکید فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا:
0 Comments